گونج: افسانہ
(افضال اشہر)
آئینے میں مولوی عرفان احمدکو گھر کا ایک خالی گوشہ نظر آتا ہے جہاں ابھی تک دسترخوان نہیں بچھا۔ وہ اپنا عمامہ درست کر رہے ہیں۔صبح کے سات بجے ہیں۔ شگفتہ بیگم سب کے لئے ناشتہ تیار کر رہی ہیں۔ان کے کام کرنے کی رفتار بڑی بیٹی مریم کی غیر موجودگی کی وجہ سے دھیمی پڑ گئی ہے۔ وہ اپنے کمرے میں ہے۔ قمر پہلی بار چالیس دن کی جماعت میں جا رہا ہے۔ مولوی صاحب اسے جماعت کے لوگوں کے ساتھ رہنے کے ادب آداب سکھا رہے ہیں۔ ان کی توجہ سیڑھیوں کی طرف ہے…… اچانک اوپر کے کمرے سے کچھ گرنے کی آواز آتی ہے۔ تھوڑی دیر بعد مریم نیچے اترتی ہے۔ اس نے پچھلی عید کے کپڑے پہنے ہوئے ہیںاسلام علیکم
اسلام علیکم
وعلیکم اسلام۔ تم نے اسکول کی وردی کیوں نہیں پہنی؟
آج اسکول میں بچوں کے لئے ایک خاص پروگرام ہے
شگفتہ اپنے شوہر کی طرف دیکھتی ہے پھر بیٹی سے پوچھتی ہے
کون سا پروگرام؟
ٹیچرز ڈے۔ مجھے گیتا میڈم بننے کا موقع ملا ہے۔وہ ہندی پڑھاتی ہیں
اچھا۔ اوپر کیا نقصان کر کے آئی ہو؟
میں گر گئی تھی
ناشتے کے بعد مریم اسکول جانے کے لئے گھر سے باہر قدم رکھتی ہے، مولوی صاحب گرجتی ہوئی آواز میں کہتے ہیں
ٹھہرو
مریم رک جاتی ہے۔ شگفتہ ان سے التجا کرتی ہے
جانے دیجئے، آدھی چھٹی میں واپس آ جائے گی
وہ بیٹی کو اشارے سے اپنے پاس بلاتے ہیں، سخت ہاتھوں سے اس کا حجاب درست کرتے ہوئے کہتے ہیں
کہیں ہمیں مت گرا دینا
مریم امی کی طرف دیکھتی ہے پھر سہمی ہوئی سی باہر چلی جاتی ہے۔
اسکول گھر سے تیس چالیس قدم کے فاصلے پر ہے۔ گھنٹی بجنے کی آواز آ رہی ہے۔ گلی میں مریم کا سامنا اپنے ابو کے دوست جمیل قریشی سے ہوتا ہے۔ اس کے ہونٹوں پر سوال ہی سوال ہیں، لہجے میں ہٹ دھرمی اور آنکھوں میں بے شرمی
کہاں جا رہی ہو؟…… تم نے برقع کیوں نہیں پہنا؟…… چہرہ دکھاؤکیا گالوں پر سرخی لگائی ہے؟ …… میری طرف دیکھو!…… عرفان میاں کہاں ہیں؟؟
مریم انھیں نظر انداز کرتی ہوئی آگے بڑھ جاتی ہے۔مولوی صاحب دور ایک کونے میں کھڑے ہیں۔ ان کی آنکھیں بیٹی کو اسکول کی دہلیز تک چھوڑ کر آتی ہیں۔
صبح کے نوبجے ہیں ……جمیل قریشی اپنے دفتر میں محلے کے کارخانے داروں کے ساتھ بیٹھا ہے۔ نفع نقصان کی باتیں ہو رہی ہیں۔ مولوی صاحب دفتر کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں …… انھیں دیکھ کر ایک شخص جمیل کے کان میں کچھ کہتا ہے، اچانک محفل برخاست ہو جاتی ہے۔ لوگ مسکراکر مہمان کو سلام کرتے ہیں۔ ان کی آنکھیں سب جانتی ہیں۔ جمیل موبائل میں مصروف ہے۔مولوی صاحب موقع دیکھ کر اس سے مخاطب ہوتے ہیں
اسکول میں کوئی پروگرام ہے۔ آدھی چھٹی میں گھرآ جائے گی
جمیل غصے میں ٹیبل پر اپنا موبائل پٹخ دیتا ہے، موبائل کی اسکرین ٹوٹ جاتی ہے۔
لڑکی کو سمجھاؤ۔ اس کی ان حرکتوں سے میرے بچوں پر برا اثر پڑے گا
میں نے شگفتہ سے ابھی بات نہیں کی ہے
یہ تمہارا مسئلہ ہے! تم جانو۔ رقیہ کے اور بھی رشتے ہیں
آپ بے فکر رہیے جمیل صاحب
مولوی تم شریف آدمی ہو! تمہاری عورت نے بچوں کو بگاڑ دیا ہے۔ اسے یاد دلاؤ کہ تم مرد ہو
جمیل کی چھوٹی بہن رقیہ مہمان کے سامنے چائے ناشتہ لے کر حاضر ہوتی ہے۔ جمیل چائے پر لپکتا ہے، رقیہ اس کے ہاتھ پر ہاتھ مارتی ہے”یہ پھیکی ہے“۔وہ مولوی صاحب کو سلام کرتی ہے، پیالی میں چائے دیتی ہے اور ناشتے کا سامان آگے کر کے چلی جاتی ہے۔ مولوی صاحب اس کے جسم کی زبان کو پڑھنے کی کوشش کر رہے تھے…… اب وہ کسی خیال میں گم ہیں۔
آج چھٹی کا دن ہے۔ گھر پر مہمان آ نے والے ہیں۔ شگفتہ بیگم پھر ماں بننے والی ہیں،انھیں تیز بخار ہے۔ صبح کے گیارہ بجے ہیں۔مریم گھر کا کام سنبھال رہی ہے۔ وہ ابو سے کہتی ہے
ابو…… بریانی کا گوشت لا دیجئے
میں مصروف ہوں …… دال بنا لو
آج عرشی اور ممانی ہمارے گھر آ رہی ہیں …… پیسے دے دیجئے…… میں لے آتی ہوں
تمہیں اس گھر میں اتنے افراد کی دعوت کرنے کا حق کس نے دیا……؟؟
امی نے دعوت کی ہے۔ ممانی کو عرشی سے ضروری کا م ہے
کیا کام ہے……؟؟
انھیں ماموں کے کوچنگ سینٹر کے لئے فیس بک پیج بنوانا ہے
مولوی صاحب لفظ فیس بک کو قطعی برداشت نہیں کرتے…… چلا کر پوچھتے ہیں
تم غیر لڑکوں سے بات کرتی ہو؟…… شرم نہیں آتی؟۔
وہ مریم کو دھکا دے کر اپنے حجرے میں جاتے ہیں …… ان کی اہلیہ سو رہی ہے…… وہ اس کے گال پر زور سے تھپڑ مارتے ہیں ……مریم امی کی ڈھال بن کرابو کو سمجھانے کی کوشش کرتی ہے……وہ کچھ سمجھنا نہیں چاہتے……ان کے حواس پر کچھ آواز یں مسلط ہیں ……اسے احساس دلا کہ تو مردہے……یہ برتن بدذات پر دے مار……اس کے بال نوچ لے…… لڑکی کو سنبھال یہ بگڑ چکی ہے……رحم مت کر یہ کمزوری ہے……رقیہ کو یاد کر!…… یہ عورت تیری دشمن ہے۔
گھر سے اُٹھ رہے شور کو سن کر عرشی دروازے سے لوٹ جاتی ہے۔ پھر ممانی آتی ہیں۔ وہ اپنی نند اور بھتیجی کاکسی زخمی جانور سے بدتر حال دیکھ کرکچن میں چلی جاتی ہیں۔ مولوی صاحب کچن پر نظریں گاڑھ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ سامنے کی میز پر صحیح بخاری رکھی ہے، اس پر سیاہی گر گئی ہے۔ممانی باہر آتی ہیں، ان کے ہاتھ میں ایک گلاس ہے جسے وہ نندوئی کی خدمت میں پیش کرتی ہیں ”جوشاندہ ہے…… پی لیجیے…… بچا ہوا نزلہ بھی جھڑ جائے گا“۔وہ ان پر لعنت بھیجتی ہیں۔ مولوی صاحب اسے گالی دے کر گھر سے نکال دیتے ہیں۔ لوگ باہر جمع ہوچکے ہیں۔ انھوں نے اپنی مٹھیاں بھیچ رکھی ہیں۔ وہ ایک مولوی کو انسانیت کی دہائی دینے سے قاصر ہیں۔ انھیں حق بات کہنے سے پہلے نمازوں کا حساب دینا پڑتا ہے۔ مسجد کمیٹی کے لوگ بھی ان میں شامل ہیں مگر کسی میں اس شخص کوآئینہ دکھانے کی ہمت نہیں۔ اذان ہوتے ہی مولوی صاحب وضو بنا کر اللہ کے گھر میں چلے جاتے ہیں۔ پھرکچھ اعتدال پسند مسلمان ہمت کرکے اپنی عورتوں کو مرحم، پٹی، روٹی، ہمدردی،شفقت اور دلاسے کے ساتھ اس گھر میں بھیجتے ہیں۔بالآخر تمام باتیں جماعت اسلامی اور مسجد کمیٹی کے صدر ڈاکٹر شیخ نعیم تک پہنچ جاتی ہیں۔
مریم ا ڈائری لکھ رہی ہے
تاریخ 29 اکتوبر 1998
میری اسکولنگ پوری ہونے والی ہے۔ شاید اب میرا نکاح ہو جائے۔ اللہ نے مجھے فیروز کی صورت میں ایک اوربھائی دیا ہے۔ اس کا چہرہ میری طرح ہے۔ قمر ابو پر گیا ہے۔ وہ بھی امی کے ساتھ سختی سے پیش آنے لگا ہے، میں اسے بہت سمجھاتی ہوں۔ ابو کے اور بھی دوست ہیں۔ان کے گھر میں ایسا نہیں ہوتا۔ وہ بیٹیوں سے محبت کرتے ہیں ان کا دل نہیں دکھاتے۔
میرے کچھ خواب ہیں۔ میں پڑھنا چاہتی ہوں۔ میری دوست جاب کرتی ہیں۔ میرا ذہن بزنس کی طرف ہے، میں سب سے بزنس کرنے کے لئے کہتی ہوں۔ امی مجھے یہ پوچھ کر چھیڑتی رہتی ہیں کہ مجھے کس طرح کا لڑکا پسند ہے؟ ……میں چپ ہو جاتی ہوں۔ مجھے کچھ نہیں معلوم۔ میں لڑکوں سے کبھی نہیں ملی۔ تبسم میڈم کہتی ہیں ”لڑکے عجیب ہوتے ہیں، ان کے دل میں بھی دماغ ہوتا ہے۔
ایک دن اسکول سے گھر لوٹتے وقت کوئی مریم کو پکارتا ہے …… وہ مڑ کر دیکھتی ہے۔ اس کے پیچھے عائشہ اورعائشہ کے پیچھے جمیل قریشی ہے۔وہ نظر میں آنے پر ایک دکان کی طرف رخ کر کے سگریٹ خریدنے لگتا ہے۔ عائشہ مریم کو چلتے رہنے کے لئے کہتی ہے:
یہ آدمی تمہارپیچھا کر رہا ہے…… میں نے اس لئے تمہیں پکارا…… یہ کون ہے؟
یہ میرے ابو کے دوست ہیں لیکن ایسا کیوں کر رہے ہیں؟
جمیل منظر سے غائب ہو جاتا ہے۔ مریم ڈری ہوئی ہے، عائشہ اس کے ساتھ ہی ہے۔ تھوڑی دور پہنچ کر ایک تنگ گلی آتی ہے۔ اس سے ایک ہی شخص گزر سکتا ہے۔دونوں لڑکیاں آگے پیچھے چل رہی ہیں۔ گلی کے آخر میں جمیل ان کا انتظار کر رہا ہے۔ اس کی توند نے خاصی جگہ گھیر رکھی ہے۔ عائشہ اسے دیکھ کرمریم سے رکنے کے لئے کہتی ہے۔ اب مریم کو جمیل پر غصہ آ رہا ہے۔ وہ کسی سے باتیں کر رہا ہے۔اب وہ ان کی طرف بڑھ رہا ہے……اس کا منشا ہے کہ لڑکیاں مجبور کو کر اس کے بہت قریب سے گزریں۔
عائشہ اپنی دوست کا ہاتھ پکڑ کر واپس چلنے کے لئے کہتی ہے ”چل مریم……یہ آدمی ٹھیک نہیں ہے“۔ مریم کے ہاتھ لزر رہے ہیں۔ اس کی آنکھیں بھر آئیں ہیں۔ گلی سے نکلتے ہی جمیل ایک دکان پر رکھے مٹی کے برتن سے ٹکرا جاتا ہے۔ دکان دار اسے ٹوٹنے سے بچاتا ہے۔ وہ جمیل سے کہتا ہے ”دیکھ کر چلو! اس میں پانی ہے“۔ جمیل مریم کی طرف دیکھ کر کہتا ہے”اس کی ایسی کی تیسی! موقع ملنے دے سارا پانی نکال دونگا“۔ مریم کی برداشت اب ختم ہو چکی ہے، وہ وحشی پر حملہ کرتی ہے…… ایک تھپڑ…… دو تھپڑ…… تین تھپڑ…… عائشہ اسے روکتی ہے۔ ہنگامے کی گونج دورتک پہنچتی ہے۔لوگ اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ خود کو ایک لڑکی کی وجہ سے رسوا پاکر جمیل بوکھلا جاتا ہے……وہ اپنا سر پیٹنے لگتا ہے…… پھر مریم کی طرف غصے سے دیکھتا ہے…… مریم اپنی عصمت کو بچانے کے لئے دوڑتی ہے…… وحشی اس کے پیچھے پڑجاتا ہے۔ عائشہ لوگوں سے اپنی دوست کو بچانے کی التجا کرتی ہے، کوئی آگے نہیں آتا، یہ سب دیکھ کر دکان دار عائشہ کے ساتھ پولس اسٹیشن روانہ ہوتا ہے۔
اکیلی پتنگ طوفان سے لڑ رہی تھی۔ آسمان رو رہا تھا۔ لوگ بھیگنے سے ڈر رہے تھے۔ ان کے پاس روشنی تھی جو تاریکی مٹا سکتی تھی مگر انھوں نے صرف تماشا دیکھا…… ہوا کی شدت پر لعنت بھیجی…… گالیاں دیں ……آخر میں سب اپنے گھرلوٹ گئے۔
مریم ایک گھر سے دوسرے گھر میں چھپنے کی کوشش کرتی ہے……کوئی اسے سہارا دیتا ہے……کوئی چلے جانے کے لئے کہتا ہے۔ وحشی نے اس کا حجاب نوچ لیا ہے……اب وہ اس کی گرفت میں آنے والی ہے……دونوں کی سانسیں ٹوٹ رہی ہیں ……مریم اپنے گھر والوں کو یاد کر رہی ہے…… اس کی آنکھیں آنسوؤں میں ڈوبی ہیں ……امی …… ابو……قمر……فیروز!تبھی سامنے اسے اپنے محلے کی مسجدنظر آتی ہے۔ اس کے باہر مسجد کمیٹی کے لوگ کھڑے ہیں۔ مریم لڑکھڑاتی ہوئی ان کے قدموں میں گر جاتی ہے۔ اس کے بال کھلے ہوئے ہیں، کپڑوں پر مٹی لگی ہے اورناک سے خون بہہ رہا ہے۔دکان دار پولس کے ساتھ وہاں پہنچ جاتا ہے۔ اس کے ساتھ عائشہ ہے۔ وہ چلا کر وحشی کی طرف اشارہ کرتی ہے…… پولس اسے دبوچ لیتی ہے۔
عصر کی نماز کے بعد مولوی عرفان احمد کو شیخ نعیم صاحب کے کہنے پر گھیر لیا جاتا ہے
ایک مومن اپنے عہد سے نہیں پھرتا…… یہ گناہِ عظیم ہے……جمیل قریشی صاحب میرے بچپن کے دوست ہیں …… میرا ان سے کاروباری رشتہ ہے……وہ میرے کرم فرماں ہیں اور میں ان کا قرضدار ہوں …… وہ ایک نیک آدمی ہیں ……سالوں پہلے انھوں نے مجھ سے میری بیٹی کا ہاتھ مانگا تھا…… تب وہ بچی تھی،اب بڑی ہو چکی ہے…… میں نے جمیل صاحب سے اسے ان کے نکاح میں دینے کا وعدہ کیا ہے……یہ میراذاتی معاملہ ہے
کمیٹی کے لوگ جناب صدر ڈاکٹر شیخ نعیم کی طرف رجوع ہوتے ہیں۔وہ مسکراتے ہیں …… پھر کرتے کی جیب سے ایک میلا کپڑا نکالتے ہیں
میں نے اس رومال سے آپ کی بچی کے چہرے پر لگا خون صاف کیا تھا……یہ پہلے کم میلا تھا، اب زیادہ ہے۔اور بھی باتیں ہیں مگر اس حادثے نے ہمیں آپ سے جواب طلب کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ یہ صرف آپ کا نہیں اب ہمارا بھی معاملہ ہے۔ لوگ ہم پر انگلی اٹھا رہے ہیں …… برا بھلا کہہ رہے ہیں …… ہم پر شدت پسندی کا داغ کیا کم تھا کہ اب آپ جیسے عالم دین شریعت کی آڑ لے کر ہوس پرستی کے بھی منصوبے بنائیں گے؟…… ہم اس کی ذات کی عبادت کرتے ہیں جس نے حق اور باطل کے درمیان فرق کیا!……ہم اس کے دین کے مبلغ ہیں، عورتوں اور مظلوموں کے حقوق کے محافظ ہیں اور یہی ہمارا مقصد حیات ہے
مولوی عرفان احمد دیوار گھڑی کی طرف دیکھتے ہیں …… پھر ایک بچے کو بھاگ دوڑ کرنے پر ڈانٹتے ہیں
او بے!ڈنڈا لے کر ادھر آ۔ کل کی مار کا تجھ پر کوئی اثر نہیں ہوا……؟؟
شیخ صاحب اس بدتمیزی کو نظر انداز کر دیتے ہیں
وہ بچی جمیل صاحب کے نکاح میں نہیں ہے۔ اس کے لئے بہتر سوچئے
آپ کو لگتا ہے میں اس کا دشمن ہوں؟
واللہ اعلم!…… میں ایک باپ ہونے کی حیثیت سے کہہ رہا ہوں کہ شادی کے معاملے میں اولاد کی مرضی کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ یہ ان کا شرعی حق ہے
دلیل پیش کیجئے!!
ایک شخص اُٹھتا ہے ”تمیز سے بات کیجئے!“۔شیخ نعیم اسے خاموش رہنے کا اشارہ کرتے ہیں …… پھر مولوی کی طرف ہاتھ بڑھا کر علامہ اقبالؔ کا شعر دوہراتے ہیں
جو میں سر بہ سجدہ کبھی ہوا تو زمیں سے آنے لگی صدا
ترا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں
مولوی عرفان احمد اُٹھتے ہیں ……کپڑے درست کرتے ہیں …… سلام کرتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ پیچھے سے آواز آتی ہے
میں مسجد کی انتظامیہ کمیٹی کے صدر کی حیثیت سے آپ کو امامت کے عہدے سے برخاست کرتا ہوں۔
Written by:
Afzaal Ashhar
(Delhi, India)
Email – ashharafzaal15@gmail.com